Monday, April 11, 2011
برطانوی مُسلم نوجوانوں کی مربیانہ رہنمائی کا پروگرام
لندن: گزشتہ عشرے کے دوران برطانیہ کے سماجی واقتصادی اعتبار سے نچلی سطح کے علاقوں میں رہنےوالے نوجوان مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے جس میں سات جولائی کے لندن بم دھماکوں اور دہشت گردی کی مسلسل دھمکیوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی سے مزید شدّت آئی ہے۔ تاہم تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ نوجوان افراد جن میں مسلمان اور دیگر مذہبی اور نسلی پس منظر رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں، ان مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں، مُثبت سوچ کی طاقت کو ہاتھ میں کر سکتے ہیں، اپنی خواہشات کی آبیاری کر سکتے ہیں اور اپنے خوابوں کو حقیقت کا رُوپ دے سکتے ہیں۔
شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوانوں میں مُستقبل میں کامیابی کے لئے خواہشات اور ارادے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر نیشنل چائلڈ ڈویلپمنٹ سٹڈی کی 31 سال پر محیط ایک معروف تحقیق کے نتائج ، جو 1989 میں پایہ ٔ تکمیل کو پہنچی، گیارہ سال کی عمر کے بچّوں کی خواہشات اور بڑے ہو کر وہ جو کچھ بنتے ہیں ان کے درمیان مضبوط تعلق کی عکاسی کرتے ہیں: تحقیق میں شامل وہ بچے جو دورانِ تعلیم پیشہ ورانہ عزائم رکھتے تھے ان میں سے تقریباً 50 فیصد بچّوں نے 30 سال بعد وہی پیشہ ورانہ کیرئیر اپنایا جب کہ ان کے مقابلے میں 29 فیصد بالغ افراد بچپن میں بہت کمزور عزائم کے مالک تھے۔
پست خواہشات کا نتیجہ کم تر تعلیمی اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی صورت میں نکلتا ہےنوجوانوں کا کسی بھی سماجی یا نسلی گروہ کوئی بھی ہو۔ ان میں الگ تھلگ ہونے اور عام معاشرے سے کٹ جانے کا عمومی احساس بھی زور پکڑ سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ کے اقلیتی نسلی گروہوں کی آرزوئیں اور ارمان کِسی بھی دوسرے گروہ سے کم نہیں ہیں۔ درحقیقت صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ لیکن حالات ان کے بلند عزائم کو ایک ایسی حقیقیت میں بدل رہے ہیں جہاں اقلیتی گروہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔
یہ ’خواہشات کی تکمیل کا خلا‘ ہے۔ یہ خلا ان معلومات کے فقدان کا پیدا کردہ ہے کہ اپنے ارمانوں کو حقیقت میں کیسے ڈھالا جائے، مثالی شخصیات بھی بہت کم ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ دیگر پیشوں میں جانے کے لئے روابط یعنی سماجی سرمایے کی کمی ہے۔
خواہشات اور ان کی تکمیل کے درمیان موجود خلا کو پُر کرنے کے لئے ہی موزیک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ نومبر 2007 میں قائم ہونے والی موزیک جو پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے علاوہ جیلوں میں بھی رہنمائی کے پروگرام پیش کرتی ہے، کے دو انتہائی سادہ لیکن ٹھوس مقاصد ہیں: ان افراد کے لئے تعلیمی مواقع پیدا کرنا جو ان سے محروم ہیں اور مختلف پس منظر رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع بڑھانا۔
موزیک کی حمایت کرنے والوں میں برطانیہ میں مُسلم طبقات کے بعض انتہائی کامیاب افراد بھی شامل ہیں۔ ہمارے تمام پروگرام اِس سادہ سے کُلیے پر مبنی ہیں کہ نوجوان کامیاب ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ لوگ ان کی مدد کریں جو پہلے ہی کامیاب ہو چُکے ہیں۔ چنانچہ ہم ایسے پروگرام پیش کرتے ہیں جو مربّیانہ رہنمائی کی بنیاد پر تشکیل دیے جاتے ہیں۔ پرائمری اسکول میں جانے کی عمر کے طلبا کے لئے رہنما مدد کا محور 10 ہفتوں کا ایک پروگرام ہے جو اسی عمر کی طالبات اور ان کی ماؤں کو بھی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دیتا اور آگے چل کر ملنے والے پیشہ ورانہ موقعوں پر ابتدا ہی میں غور کرنے پر اُکساتا ہے۔
سماجی واقتصادی اعتبار سے پس ماندہ طبقات میں پروان چڑھنے والے سیکنڈری اسکول کےطلبا کو ہم کام کاج کی جگہوں تک رسائی فراہم کرتے ہیں جہاں تک ان کے خیال میں بصورتِ دیگر رسائی ممکن نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اُن کے روابط ایسے نیٹ ورکس اور مواقعوں کے ساتھ جوڑتے ہیں جن کے دورازے اُن پر بند ہو چکے ہوں۔
انتہائی مضبوط شہادتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ’نرم مہارتیں‘ یعنی ذاتی خصوصیات، سماجی توقیر، ابلاغ، زبان، ذاتی عادات، دوستانہ انداز اور رجائیت پسند روّیہ اسکول اور روزگار کی دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تیزی سے اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ان نرم مہارتوں پر عبور حاصل کرنا کِسی بھی سماجی و اقتصادی محرومی کا ازالہ کر سکتا ہے۔ ان مہارتوں کو نکھارنے کی حمایت کرنا نوجوانوں کو محرومی اور امتیازی سلوک کا چکرّ توڑنے میں مدد کر سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے مزید مواقع اور تربیت کی خواہش رکھنے والے جن نوجوانوں کے ساتھ کام کرتے ہیں ان کے لئے رہنمائی کے مروّجہ پروگراموں سے آگے بڑھتے ہوئے نوجوان قیادت کے خصوصی پروگرام پیش کرتے ہیں۔
پچھلے تین سال کے دوران ہم نے بہت جلد یہ سیکھ لیا تھا کہ ہمارے رضاکار مرّبیوں کے لئے محض نوجوانوں کے عزائم کو بلند کرنا کافی نہیں ہے؛ ، چاہے ان کے ذاتی حالات کچھ بھی ہوں انہیں ان ارادوں کو حقیقت میں ڈھالنے پروان چڑھانے اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے مہارتیں اور مواقع بھی درکار ہیں۔
وہ ہزاروں نوجوان جن کے ساتھ ہم نے کام کیا ہے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا اندازِ فکر کارآمد ہے۔ لندن کے ایک نوجوان کا کہنا تھا ’’ میں خود پر یقین رکھتا ہوں اور اب مجھے زیادہ اعتماد ہے کہ میں اپنا پیشہ ورانہ مستقبل کامیابی سے تلاش کر لوں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا مربی رہنما بہت متاثر کُن تھا۔‘‘ سیکنڈری اسکول کے ایک اُستاد نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’میں نے کبھی اپنے طلبا کو یوں متوجہ بیٹھے نہیں دیکھا۔۔۔ آج تک مربیانہ رہنمائی کے جتنے پروگراموں سے منسلک رہا ہوں، یہ اُن میں سب سے بہتر ہے۔‘‘
سماجی طبقہ، نسلی پس منظر، جغرافیہ اور عقیدہ شخصیت ساز عوامل سہی، لیکن یہ ہمیں جکڑ نہیں سکتے۔ یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ مثبت سوچ کی طاقت بروئے کار لاتے ہوئے ہر نوجوان، چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، اپنی مشکلات پر قابو پا کر ذاتی اور پیشہ ورانہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment