Monday, April 11, 2011
لبنان میں مذہب کی بنیاد پر اختیارات کی تقسیم کا نظام بدلنے کی مہم
بیروت: ماؤں کے عالمی دِن سے ایک روز قبل 20 مارچ کو لبنان میں ہر عمر کے 30’000 لوگ یہ نعرے لگاتے ہوئے بیروت کی سڑکوں پر نکل آئے کہ مُلک میں عقیدے کے بنیاد پر قائم نظام کو ختم کیا جائے۔ یہ مظاہرہ اُن تین ہزار نوجوانوں کی طرف سے27 فروری کو کیے گئے اُس مظاہرے کا تسلسل ہے جو لبنان کو ایک سیکولر مُلک بنانے کے لئے ہر اتوار کو مظاہرہ کرنے کا تہّیہ کیے ہوئے ہیں جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔
مُظاہرین کے مطالبات واضح ہیں: وہ ایک سیکولر ریاست اورشخصی حیثیت کا ایسا قانون چاہتے ہیں جو خواتین کے حقوق کی ضمانت دے، لبنان کے موجودہ نظام کو ختم کردیا جائے جو مذہبی فرقوں کو طلاق اور وراثت کے معاملے میں مختلف شہری قوانین کی تعمیل کی اجازت دیتا ہے اور عدالتی شادی کا قانون لاگو کیا جائے۔
لبنان کی سول سوسایٹی نے لبنان کے مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان عقیدے کی بنیاد پر اختیارات کی تقسیم کا نظام ختم کرانے کی مُہم کا آغاز کرنے کے لئے اثر خطّے میں عوامی سطح پر اُٹھنے والی تحاریک سے حاصل کیا ہے۔ اگرچہ لبنانی آئین کے دیباچے میں یہ لکھا ہے کہ ’’ سیاسی مذہبیت کا خاتمہ ایک بنیادی قومی ہدف ہے ۔۔۔۔۔‘‘ لیکن 1943 کے ایک غیر تحریری قومی معاہدے کے تحت اختیارات کی تقسیم کا نظام عقیدے کی بنیادوں پر تشکیل دیا گیا ہے جس میں پارلیمنٹ میں نشستیں مذہب کی بنیاد پر مختص کی گئی ہیں اور اعلیٰ ترین عہدوں پر مخصوص فرقوں کے افراد تعینات کیے جاتے ہیں: صدر ہمیشہ میرونائیٹ عیسائی بنتا ہے، وزیرِاعظم سُنّی مسلمان ہوتا ہے جب کہ پارلیمنٹ کا سپیکر ہمیشہ شیعہ آبادی سے لیا جاتا ہے۔
لبنان میں باضابطہ طور پر تسلیم شُدہ مذہبی طبقات کی تعداد ہ 18 ہے اور شخصی حیثیت کے قوانین کے تحت شادی، طلاق، متبنٰی بنانے، بچّوں کی تحویل اور وراثت سے متعلق مقدمّات کی سماعت کے لئے ہر کمیونٹی کی اپنی عدالتیں قائم ہیں۔ درُوز، شیعہ اور سُنّی شہریوں میں سے ہر گروپ اسلامی شریعت کی اپنے انداز میں تشریح کرتا ہے۔ اِسی طرح آرتھوڈوکس اور غیر آرتھوڈوکس مسیحی طبقات بھی مسیحی قوانین کی مختلف تشریحات کی تعمیل کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر قوانین محض مردوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہوئے پدر سری اقدار پروان چڑھاتے ہیں۔
مختلف عدالتوں کے اس مُتصادم نظام کا نتیجہ مردوں بلکہ عورتوں کے مابین بھی قانون کے غیر مساوی اطلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر سُنّی اور شیعہ عدالتیں مردوں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دیتی ہیں جب کہ دروز اور مسیحی عدالتیں ایسا نہیں کرتیں۔ کیتھولک عدالتوں میں طلاق کی ممانعت ہے جب کہ سُنّی، شیعہ اور دروز عدالتیں اس کی اجازت دیتی ہیں۔
جو لوگ لبنان سے باہر عدالتی شادی کرتے ہیں انہیں ایک اور طرح کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شخصی حیثیت کے بہت سے قوانین ایسی شادی کی اجازت نہیں دیتے جس میں دُلہا یا دُلہن میں سے کسی ایک کا تعلق مختلف مذہبی طبقے سے ہو۔ لبنان میں چونکہ عدالتی شادی نہیں ہوتی اِس لئے مختلف مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ جو مذہبی شادی پر یقین نہیں رکھتے یا ایسے جوڑے جن میں کوئی ایک اپنا عقیدہ تبدیل نہیں کرنا چاہتا اُنہیں ہمسایہ ممالک مثلاً قبرص یا تُرکی کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔
فرمان نمبر 60/1936 کی دفعہ 25 کے مطابق کِسی بھی جوڑے کی شادی کو لبنان میں تسلیم تو کیا جاتا ہے لیکن اس پر اُس مُلک کا قانون لاگو ہوتا ہے جہاں شادی عمل میں آئی ہو۔ یہ صورتحال لبنانی ججوں کے لئے دردِ سر ہے کیونکہ کِسی عائلی مسئلے سے نمٹنے کے لئے اُن کا اُس مُلک کے قانون سے واقف ہونا ضروری ہے جہاں شادی کی گئی ہو۔
اختیاری اقدام کے طور پر ہی سہی، عقیدے کی بنیاد پر اختیارات کی تقسیم پر مبنی سیاسی اور سماجی نظام کی وجہ سے شخصی حیثیت سے متعلق ایک شہری ضابطہ وضع کرنے کی بہت سی کوششیں اب تک ناکام ہو چُکی ہیں۔
تاہم سول سوسائٹی نے اس سلسلے میں عملی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ کے اے ایف اے (’کَفا‘،(عربی زبان میں مطلب ’’کافی‘‘)، جو خواتین کی مختلف تنظیموں اور اداروں پر مشتمل نیٹ ورک ہے مارچ میں سڑکوں کے کنارے بڑے اشتہاری بورڈ نصب کرنے کی مہم چلا چکا ہے۔ اس مہم کا مقصد عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے اقوامِ متحدہ کنونشن کی دفعہ 16 کی جا مع تعمیل ہے جس میں شادی کے لئے مرد اور عورت کے برابر حقوق اور دونوں کی رضامندی پر زور دیا گیا ہے۔
کَفا اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ لبنان میں سبھی لوگوں پر شخصی حیثیت کے یکساں قوانین لاگو ہونے چاہئیں جن میں عورتوں کو شادی، وراثت، طلاق، نان نفقہ اور بچوّں کی تحویل کے معاملے میں ویسے ہی حقوق اور ذمہ داریوں کی ضمانت دی جائے جو لبنانی آئین اور صنف سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں میں مردوں کو دیئے گئے ہیں۔
شخصی حیثیت کا متفقہ شہری ضابطہ مرد وعورت اور مختلف عقائد سے وابستہ لبنانی خواتین کے مابین موجود عدم مساوات کا خاتمہ کرے گا اور سیاسی مذہبیت کو ختم کرنے کے آئینی مقاصد کے حصول کی سمت میں پہلا قدم ثابت ہوگا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment