مائی جوری کے نام “ کالم“ اشفاق رحمانی
خواتین کے عالمی دن پر پاکستان میں خواتین کی تنظیمین سیمنار ، جلسے اور جلوس منعقد کرتی ہیں ۔جیسا کہ گزشتہ روز بھی ہوا۔آٹھ مارچ کو ہر سال دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہر ملک میں اس موقع پر خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کے لیے سیمینار، جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں۔پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی اس سلسلے میں پروگرام منعقد کیے جارہے ہیں اور اسلام آباد میں حکومت اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے علحدہ علیحدہ جلوس نکالے۔ ’’جہاز‘‘ کی اُڑان میں ’’ذمہ دار‘‘نیلو فر بختیار نے اس موقع پر کہا کہ خدا کے بعد پاکستان میں صدر جنرل پرویز مشرف ہیں جنہوں نے خواتین کو سب سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کی نسبت خواتین کو دنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمانوں میں نمائندگی حاصل ہونے میں بہتری آئی ہے لیکن برابری میں اب بھی چوبیس برس لگ سکتے ہیں۔ان کے مطابق انیس سو پچہتر میں دنیا کے منتخب عوامی ایوان نمائندگاں میں دس اعشاریہ نو فیصد خواتین کی نمائندگی تھی ۔
قارئین محترم ۔ ۔ ۔ آج کا یہ کالم خواتین نہیں صرف ایک خاتون نے نام ہے’’مائی جوری‘‘۔ایک رپورٹ کے مطابق، بلوچستان کے قبائلی اور پسماندہ صوبائی حلقے پی بی پچیس جعفرآباد کے ضمنی انتخابات میں مقامی جاگیرداروں اور سرداروں کے سامنے ایک کسان عورت مائی جوری بھی امیدوار ہیں، کہا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے کے پہلی خاتون امیدوار ہیں۔مائی جوری گوٹھ غلام محمد جمالی کی رہائشی ہیں۔جعفرآباد مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے نام پر بنایا گیا شہر ہے۔ میر جعفر نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔یاد رہے کہ پڑوسی ضلعی ڈیرہ اللہ یار میں دو سال قبل تین خواتین کو زندہ درگور کرنے کی بھی اطلاعات آئیں تھیں، اور اور اطلاع کے مطابق بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے دو خواتین کے زندہ درگور کیے جانے والے مقدمے میں چار افراد کو پچیس پچیس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ دوخواتین کے زندہ در گور کیے جانے کا واقعہ اگست سال سنہ دوہزار آٹھ میں رپورٹ ہواتھا اور اس کا فیصلہ اٹھارہ مہنے کے بعد ہوا ہے۔ملزمان کے وکیل کے مطابق دوخواتین کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
پنجاب کی خوش شکل و خوشحال صاحبو ! مائی جوری کے علاقے میںپسماندگی کہیں زیادہ ہے، بیروزگاری ہے اور تعلیم نہیں ہے جس وجہ سے جاگیرداروں اور سرداروں کی اجارہ داری ہے۔مائی جوری کے شوہر نیاز علی جمالی کسان ہیں اور اپنے دیگر چار بھائیوں کے ساتھ کاشتکاری کرتے ہیں۔ مائی جوری کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار ناصر خان جمالی، آزاد امیدوار میر عطااللہ بلیدی، جے یو آئی کے امیدوار عبدالحکیم میمن سے ہے ۔مائی جوری کا گاؤں جھٹ پٹ سے کوئی ستر کلومیٹر دور ہے، چھ ہزار آبادی کے اس گاؤں میں ایک پرائمری سکول ہے جو اٹھارہ سو چالیس میں قائم کیا گیا تھا جبکہ صحت کی سہولت کے لیے صرف ایک ڈسپینسر دستیاب ہے۔ مائی جوری کے مطابق انہی مسائل نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مجبور کیا۔ساری عمر ہم سے ظلم ہوا ہے، نہ یہاں پینے کے لیے پانی ہے اور نہ فصلوں کے لیے پانی دستیاب ہے، بھوک نے حق مانگنے کے لیے سیاست میں لاکھڑا کیا ہے ۔مائی جوڑی کا گوٹھ انیس سو اٹھہتر میں پٹ فیڈر کسان تحریک کی وجہ سے پورے ملک میں مقبول ہوا تھا۔ جب ملک بھر سے ترقی پسند اور ٹریڈ یونین رہنماؤں نے تحریک کی خاطر ان کے گوٹھ میں ڈیرے ڈالے۔ اب یہ گاؤں ایک مرتبہ پھر میڈیا کی شہ سرخیوں میں آگیا ہے۔مائی جوری کو عوامی پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ ان کی سیاست کا مرکز پانی نظر آتا ہے شاید اسی لیے انہوں نے انتخابی نشان کشتی چنا۔ ان کے جلسے جلوسوں میں بھی جوری مائی آئے گی پانی لائے گی، جاگے جاگے ہاری جاگے کے نعرے لگتے ہیں۔مائی جوری کے سارے الیکشن اخراجات ان کے ووٹروں نے اُٹھائے ہیں جہیں دو کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے ۔پاکستان کی سیاست میں یہ تاثر عام ہے کہ انتخابات کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ مگر مائی جوری اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنی انتخابی مہم پیدل چلائی یا ان کے حامیوں نے موٹر سائیکلوں پر جاکر کام کیا۔مائی جوری کے مطابق الیکشن کے اخراجات کے لیے انہوں نے ووٹروں سے ہی چندہ لیا ہے۔اس سے بڑی خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ علاقے کو خوشحالی کی طرف گامزن کرنے کی طرف پہلا قدم ایک عورت نے اُٹھایا ہے۔ معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ہوسکتا ہے مائی جوری کو مد مقابل سیاست دانوں سے زیاد ہ نقصان روایتی مُلا سے ہو مگر اسلام ہی تو وہ دین ہے جس نے ایک عورت کی تعلیم کو پورے گھرانے کی تعلیم سے مراد کیا۔ مائی صرف ایک گھر کے لئے نہیں گھرانوں کے لئے لڑ رہی ہے۔اگرچہ دس مارچ کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں مائی جوری کی سیاسی پوزیشن کمزور نظر آتی ہے مگر تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ اس صورتحال میں اپنی لیے جگہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔مائی جوری ہارے یا جیتے ایک علیحدہ سوال ہے لیکن ہم ماری جوری کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں۔اگر وہ سچے دل اور لگن سے ان مسائل پر کام کرے تو ہمیں ہاری ہوئی جوری بھی منظور ہے۔
Wednesday, March 10, 2010
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment